ہندوستان کی ملی جلی تہذیب فارسی زبان کا تحفہ: ضمیر الدین شاہ
اُردو یونیورسٹی میں فارسی اساتذہ کی بین الاقوامی کانفرنس۔ سفیر ایران ڈاکٹر غلام رضا انصاری اور پروفیسر محمد میاں کے خطاب
حیدرآباد، 19؍ ستمبر (پریس نوٹ) فارسی زبان پر ہندوستان میں جو کام ہوا وہ
خود فارسی ممالک میں بھی نہیں ہوا۔ خصوصاً حیدرآباد دکن میں فارسی شعر و
ادب کی کافی خدمت ہوئی۔ ہندوستان میں 1810ء میں پہلا فارسی روزنامہ جاری
ہوا۔ اس کے بعد بڑی تعداد میں فارسی روزنامے مختلف مقامات سے جاری ہوئے۔ ان
خیالات کا اظہار ڈاکٹر غلام رضا انصاری، سفیر ایران ، دہلی نے آج مولانا
آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ،شعبۂ فارسی اور انجمن استادان فارسی، ہند (اے
آئی پی ٹی اے) کے زیر اہتمام 33 ویں سہ روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے
افتتاحی اجلاس میں کیا۔ کانفرنس کا موضوع ’’حیدر آباد دکن میں فارسی زبان و
ادب‘‘ ہے۔ پروفیسر محمد میاں، شیخ الجامعہ نے صدارت کی۔ ڈاکٹر غلام رضا
انصاری نے اپنے فارسی خطاب میں کہا کہ ہندوستانی شعراء بطور خاص بیدلؔ ،
امیر خسروؔ ، علامہ اقبالؔ نے جو معیاری کام فارسی میں کیا ہے، اسے فارسی
دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ فارسی لغات بھی ایران سے زیادہ ہندوستان میں
شائع ہوئیں۔ گذشتہ 800 برسوں سے اس پر کافی کام ہوا لیکن انگریزوں نے اسے
بڑا نقصان پہنچایا۔ اس کے بعد جواہر لال نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد
جیسے رہنماؤں نے اسے دوبارہ وہ مقام دلایا جس کی فارسی حقدار تھی۔ انہوں نے
کہا کہ حکومت ہند نے ہمیشہ فارسی کی مدد کی اور ہندوستان اور ایران کے
تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ آئندہ بھی ہندوستانی
حکومت ایران سے بہترین تعلقات جاری رکھے گی۔ ہندوستانی تمدن نے مختلف ممالک
کے تمدن کو اپنایا اور سبھی سے بھائی چارہ روا رکھا، اسی وجہ سے ہندوستان
میں فارسی کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ انہوں نے کہا کہ ایران فارسی کی
تعلیم کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور ہندوستانی حکومت سے توقع ہے کہ وہ بھی
تعاون کرے گی۔ جناب علی اکبر نیرومند، پی آر او، قو نصل خانہ ایران،
حیدرآباد نے ان کی تقریر کا اردو ترجمہ پیش کیا۔ لفٹننٹ جنرل ضمیر الدین
شاہ، وائس چانسلر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے افتتاحی خطاب بحیثیت مہمانانِ
خصوصی میں کہا کہ میری والدہ کی زبان فارسی ہے۔ جب میرے والدین فارسی میں
بات کرتے تو مجھے موسیقی کا گمان ہوتا ۔ اس سے فارسی زبان کی چاشنی کا
اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اے آئی پی ٹی اے گذشتہ 3 دہائیوں سے فارسی کی خدمت
کر رہا ہے اور ملک کے گوشے گوشے میں فارسی کو پھیلا رہا ہے۔ انہوں نے اردو
یونیورسٹی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے کیمپس کی تعریف کی۔
جناب
علی فولادی، کلچرل کونسلر، ایران، دہلی نے اپنے فارسی خطاب میں ہندوستان
میں فارسی کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ مغلوں نے فارسی کو فروغ دیا
اور اکبر کے دربار میں فارسی عالم موجود تھے۔ جہانگیر خود بھی فارسی کا
عالم تھا اور اس نے فارسی میں کتابیں لکھیں۔ پروفیسر محمد میاں، وائس
چانسلر نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ زبانیں لوگوں کو جوڑتی ہیں۔ فارسی
چونکہ دل و محبت کی زبان ہے اسی لیے یہ دلوں کو جوڑنے میں کچھ آگے ہی ہے۔
اسی طرح اردو بھی عشق و محبت کی زبان ہے۔ اردو ایک سیکولر اور انسانیت کی
زبان ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں سنٹر فار سنٹرل ایشین اسٹڈیز کے
قیام کی تجویز ہے۔ ممکن ہے بہت جلد اس کا قیام عمل میں آئے گا اور اس سنٹر
کے تحت یونیورسٹی میں فارسی کا اہم رول ہوگا۔ پروفیسر آذرمی دخت صفوی، صدر
اے آئی پی ٹی اے نے اپنے خطاب میں کہا کہ مولانا آزاد ہندو۔ مسلم اتحاد کے
خواہشمند تھے۔ غبارِ خاطر کے مختلف خطوط سے ان کی یہ خواہش نمایاں ہوجاتی
ہے کہ کس طرح انہوں نے مسلسل مختلف لوگوں کو ہندو۔ مسلم اتحاد کے متعلق
خطوط لکھے۔ مولانا نے کہا کہ گنگا اور جمنا دو الگ الگ دریا ہیں لیکن پھر
وہ مل جاتی ہیں۔ اس طرح انہیں الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ہندو ۔ مسلمانوں کا بھی
یہی حال ہے۔ اب وہ علیحدہ نہیں ہوسکتے۔ اس کا نمونہ خطۂ دکن ہے۔ انہوں نے
کہاکہ ہم ملک کے مختلف شہروں میں جاکر اپنا پیغام دے رہے ہیں کہ فارسی آپ
کا ثقافتی ورثہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دکن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اردو کے
پہلے شاعر کا تعلق یہیں سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ قلی قطب شاہ اردو کے علاوہ
فارسی اور تلنگی میں بھی شاعری کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شیواجی کے
تقریباً 5 ہزار فرامین فارسی میں تھے۔ ڈاکٹر خواجہ محمد شاہد، نائب شیخ
الجامعہ نے اپنے خیر مقدمی خطاب میں کہا کہ اردو یونیورسٹی میں مختلف
مضامین کی تعلیم اردو میں دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں مختلف زبانوں کے
شعبہ بھی ہیں۔ یونیورسٹی کے دائرہ کار میں بطور خاص خواتین کی تعلیم پر بھی
توجہ دینا شامل ہے۔ اسی لیے یونیورسٹی خواتین کی تعلیم پر توجہ دے رہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ شہر حیدرآباد ہی نہیں بلکہ سارے ملک پر ایرانی کلچر کی
چھاپ ہے۔ پروفیسر اختر مہدی، جوائٹ سکریٹری اے آئی پی ٹی اے نے کاروائی
چلائی اور مہمانوں کا تعارف پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی کئی زبانوں
میں فارسی کے الفاظ شامل ہیں لوگ انہیں بولتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ اس
لفظ کا تعلق فارسی سے ہے۔ پروفیسر عزیز بانو، صدر شعبۂ فارسی و آرگنائزنگ
سکریٹری کانفرنس نے شکریہ ادا کیا۔ مختار احمد کی قرأت کلام پاک سے جلسے
کا آغاز ہوا۔ کثیر تعداد میں مندوبین، اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی۔